ہفتہ وار درس سے اقتباس
میرے محترم دوستو! عجیب واقعہ سنیں‘ میرے ایک جاننے والے نے مٹھائی کی بہت بڑی دوکان کھولی ‘کاروبار کی طرف تو بہت توجہ دی مگر نماز ‘اعمال ‘تسبےحات ‘حلال حرام کا کبھی غم نہیں کیا۔ پھر انہوںنے شادی کی، اولاد ہوئی، ان کو تعلیم دلائی، تربیت کی اور ان کو دنیا کی ہر چیز دی۔ سبھی کچھ کرایا مگر انہوںنے ان کو ایمان نہیں سکھایا، ان کو اللہ کا تعلق نہیں سکھایا، ان کی آخرت نہیں سنواری ۔ میں نے ایمان اور اعمال کی زندگی کو چھوڑ کے مال کمایا تھا۔ پھر کہنے لگے کہ سارے بیٹوں نے مل کر مجھے مارا‘ گھر سے نکال دیا۔ پھر میں نے مقدمہ کیا‘ عدالت میں گیا۔ پنچائیت میں بیٹھ کے فیصلہ کیا۔ اب میرے بچے مجھے تھوڑا دودھ دے دیتے ہیں یا دس، بیس روپے روزانہ دیتے ہیں اور ایک پرانی بوسیدہ کوٹھڑی جہاں کتا باندھتے تھے وہ مجھے دی ہے۔ میں وہاں زندگی کے دن رات گزار رہا ہوں، مجھ سے کہنے لگے ایمان اور اعمال کی زندگی کا ہمیشہ خیال کرنا۔ میںمثال دیا کرتا ہوں کہ اکثر دیہات میں اگرگاﺅں کے چوہدری کو ووٹ نہ دئیے جائیں یا الیکشن میں اس کی مخالفت کی جائے تو وہ کسی نہ کسی کیس میں پھنسائے رکھتا ہے۔، چین سے نہیں بیٹھنے دے گا۔یادر رکھیں کہ ساری کائنات کا مالک ساری کائنات کا بڑا رب العالمین جو اس کے ساتھ بنا کے نہیں رکھے گاکیا وہ چین سے بیٹھے گا؟ سکون سے رہے گا؟ کیسے رہ سکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ چیزیں تو ہوں گی مگر اللہ ان کے اندر سے آرام چھین لے گا ۔آپ ذرا سوچیں تو سہی جن لوگوں نے آسائش اور آرام کی چیزیں بنائی ہیں کہ ایک بٹن دبانے سے سارے کا سارا نظام جو پہلے محنت کرنے سے ہوتا تھا، ہو جاتا ہے۔ جاپان والیم یورپ والے آخر خودکشی کیوں کرتے ہیں؟ جنہوں نے اتنی سہولت کی چیزیں بنائی ہیں ‘آخر کس بات سے پریشان ہیں؟ اصل میں اندر کا سکون لُٹ چکا ہے۔ میرے محترم دوستو! اب تو ماہر نفسیات اور بڑے بڑے ڈاکٹر بھی کہتے ہیں کہ کچھ وقت ذکر کو دو۔ ایک دن ایک ماہر نفسیات کا میرے پاس خط آیا۔ اس کے پاس امریکہ سے لی ہوئی ڈگریاں تھیں مگر اندر کا سکون نہیں تھا اس نے لکھا کہ جب تم اللہ کے تعلق سے منہ موڑو گے تو کائنات کی کوئی دوائی، کائنات کا کوئی طریقہ، کائنات کی کوئی جڑی بوٹی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ فائدہ تو اللہ کے نام میں ہے۔ ہاں یہ چیزیں اختیار کرنی ہیں تو تدبیر کے طور پر ‘اصل تو مسبب الاسباب اللہ ہے۔ اللہ چاہے گا تو چین دے گا، اللہ چاہے گا چین واپس لے لے گا۔ میرے محترم دوستو! ہر پل، ہر لمحہ، ہر ساعت، ہر گھڑی صرف اللہ جل شانہ کے تعلق کو حاصل کریں۔ بیٹھ بیٹھ کر اپنا حساب کیا کریں کہ تو آخرت کیلئے کتنا کما رہا ہے؟ تیری زندگی کے باقی دن کتنے رہ گئے ہیں؟ مجھ سے ایک صاحب کہنے لگے کہ پچاس سال کے بعد بونس کی زندگی ہے۔ میرے دوستو! پچاس سال بھی کہاں!! اس امت کی عمریں تھوڑی ہیں۔ میرے دوستو! دنیا کی محنت کرتے کرتے کہیں آخرت کی محنت کو نہ بھول جانا۔ آخرت کی تیاری ‘اللہ کے ساتھ ملنا اور آخرت کیلئے محنت کرنا اور قربانی کرنا۔ آپ یقین جانئے دنیا کی محنت کو ہم کس سلیقے سے کرتے ہیں۔ پھل والا اپنے پھلوں کو کس سلیقے سے سجا کے رکھتا ہیم مٹھائی والا، منیاری والا، کپڑے والا اپنی چیزوں کو کس سلیقے سے رکھتا ہے‘ اخبار والا اخبارات کس سلیقے سے سجا کے رکھتا ہے۔ ہم اپنی عبادتوں کو کیسے سجاتے ہیں؟ ہماری عبادتوں کا ظاہر شاندار ہو، ہماری عبادتوں کا باطن جاندار ہو۔ اللہ کے سامنے انہیںسجا کے پیش کرو لیکن ہم اپنے گلے سے اتارتے ہیں۔ میں اپنا موازنہ کروںاور آپ اپنا موازنہ کریں۔ اندر کا دھیان کیسا ہوتا ہے؟ باہر کی کےفیت کیسی ہوتی ہے؟ شیشے کے سامنے کتنا وقت دیتے ہیں اور مصلے پہ کتنا وقت دیتے ہیں۔ دنیا والوں سے باتیں کرنے میں کتنا وقت دیتے ہیں‘ اخبار کو کتنا وقت دیتے ہیںاور قرآن کو کتنا وقت دیتے ہیں اور بتائیں اللہ سے باتیں کرنے میں کتنا وقت دیتے ہیں‘ نماز کے اندر‘ تسبےحات کے اندر ‘تلاوت کے اندر کتنا وقت دیتے ہیں۔ ٹھنڈے دل سے بیٹھ کے موازنہ کریں۔ ساری دنیا کی زبانیں بند ہو جائیں گی۔ داستانیں ختم ہو جائیں گی، کوئی یاد ہی نہیں کرے گا۔ اس لئے میرے دوستو! اس دنیا میں جتنا رہنا ہے اس کی تیاری اتنی کریں۔ آخرت میں جتنا رہنا ہے اس کی تیاری اتنی کریں۔ موت حقیقت، آخرت حقیقت، اللہ جل شانہ کے سامنے حاضری حقیقت۔ یہ ساری کائنات حقائق ہیں، خدا کو نہ ماننے والے ملیں گیم سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ماننے والے ملیں گیم کبھی موت کو نہ ماننے والا نہیں ملے گا۔ یہ ساری حقیقتیں ہیں۔ میرے دوستو! سچی حقیقتیں ہیں۔ اگر کوئی نہ مانے تو تلخ حقیقتیں ہیں لیکن حقیقتیں ہیں۔ بیٹھ کے اپنا موازنہ کیا کریں کہ میری تسبےحات ہو رہی ہیں، اللہ کا نام میری زبان پہ ہے یا نہیں ہے۔سوچیں تو‘ اگر اللہ صحت چھین لے اور بستر پر لٹا دے۔ وہ قادر ہیم پل بھر میں کر سکتا ہیم کسی اور پریشانی میں ڈال دے ‘وہ پل بھر میں کر سکتا ہے۔ ارے دوستو! جس رب نے ساری نعمتیں دی ہیں اس رب کیلئے بھی کوئی وقت ہے۔ایک سخی زمیندار تھا، غریب آدمی اس کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ دودھ تو دے دے۔ زمیندار موج میں کھڑا تھا‘ کہنے لگا یہ بھینس ہے اور ساتھ اس کا بچہ ہے‘ بہت زیادہ دودھ دیتی ہے‘ لے جاﺅ مفت میں، اس نے کہا تیرا بھلا ہو میرے پاس گھاس بھوسہ کہاں سے آیا؟ کہنے لگا مجھ سے لے لیا کر۔ تیرے بچے پئیں گے تو میرے لئے دعا کیا کرنا۔ خوش خوش بھینس لیے جا رہا تھا کہ اس زمیندار نے پیچھے سے بلایا اورکہنے لگا دیکھ بات سن میرا فلاں رشتہ دار تیرے گھر کے قریب رہتا ہے‘ بڑا غریب ہے ایک پاﺅ دودھ روز اس کو دے دیا کرنا اب یہ غریب آدمی فورا ً کہتا ہے کہ میں اس کو ایک پاﺅ دودھ تو نہیں دوں گا۔ بھینس کا سارا دودھ خود پیوں گا۔ زمیندار حیران ہوتا ہے کہ ابھی میں بھینس دے رہا ہوں‘ بھوسہ دے رہا ہوں‘ گھاس دے رہا ہوں اور یہ ایک پاﺅ دودھ بھی نہیں دے سکتا۔ کہنے لگا میں تو نہیں دوں گا۔ ہے نا عجیب بات۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں